Tuesday, October 19, 2010

PAC Pakistan - Action against Former Armed Forces Officers

Share4 ارب کا نقصان، پبلک اکاؤنٹس کمیٹی 3 سابق جرنیلوں کیخلاف کارروائی کی سفارش کرے گی
اسلام آباد (رؤف کلاسرا) پبلک اکاؤنٹس کمیٹی پاک فوج کے 3 سابق جرنیلوں کیخلاف غیرمعمولی کارروائی کی سفارش کرنے والی ہے کیونکہ یہ تین جرنیل ایک انکوائری رپورٹ میں اس بات کے مجرم پائے گئے ہیں کہ انہوں نے مشرف دور میں بغیر کسی قانونی اختیار کے ا سٹاک ایکسچینج میں رقم لگا کر این ایل سی کو 4 ارب کا دماغ چکرا دینے والا نقصان پہنچایا۔ان جرنیلوں کیخلاف انکوائری رپورٹ جو 9 ماہ تک دبی پڑی رہی پی اے سی کے اگلے اجلاس میں پیش کی جا رہی ہے جو این ایل سی کے سابق وردی پوش حکام کی قسمت کافیصلہ کرے گی۔ ان حکام نے اسٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری کیلئے بینکوں سے 2 ارب روپے کا کمرشل قرضہ بھی لیا اور اسٹاک بروکرز کے تعاون سے ساری رقم ڈبو دی۔رپورٹ میں این ایل سی کی تاریخ کے سب سے بڑے سکینڈل میں فوج کے جرنیلوں کے ملوث ہونے کے دستاویزی ثبوت بھی موجود ہیں۔ منگل کے روز پی اے سی کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے چیئرمین چوہدری نثار علی نے ان جرنیلوں کے مستقبل کے حوالے سے اس وقت واضح اشارہ دیدیا جب انہوں نے کہا کہ اگلے اجلاس کے ایجنڈے میں زیر التوا انکوائری رپورٹ کو شامل کیا جائے کیونکہ رپورٹ کے مطابق یہ جرنیل این ایل سی کو نقصان پہنچانے میں براہ راست ملوث ہیں۔اگرچہ چوہدری نثار نے سابق جرنیلوں کی کرپشن کے بارے میں اپنے خیالات کا واضح اظہار نہیں کیا کیونکہ انہوں نے یہ تاثر نہ دینے کیلئے وہ اجلاس سے پہلے ہی طے کرچکے ہیں وہاں اپنے الفاظ ضبط کرلئے لیکن نثار علی نے وہا موجود تمام افراد کو یہ واضح اشارہ دیدیا کہ ان کی کمیٹی (پی اے سی) ان سابق جرنیلوں کیخلاف غیرمعمولی کارروائی کی سفارش کرے گی۔ ان جرنیلوں کیخلاف انکوائری رپورٹ کمیٹی کو 22 جنوری کو موصول ہوئی لیکن 9 ماہ کے عرصے کے دوران وہ اس کے ایجنڈے پر نہ آسکی۔نثار نے بتایا کہ انکوائری رپورٹ کو پہلے ہی پی اے سی کے ارکان کے درمیان تقسیم کردیا گیا ہے اور اس پر بحث کیلئے یہ ان کے سامنے پیش کی جائے گی۔ چوہدری نثار نے آڈیٹر جنرل آف پاکستان تنویر آغا کو کہا کہ ”میں نے اس ایشو پر جو کچھ کرنا ہے اس حوالے سے اپنا ذہن بنالیا ہے لیکن آگے بڑھنے سے قبل آپ کی رہنمائی چاہوں گا۔“نثار علی خان نے خصوصی پارلیمانی کمیٹی برائے ریلوے کے سربراہ ایم این اے افضل چن کی بھی تعریف کی جنہوں نے حال ہی میں 3 سابق جرنیلوں کیخلاف ایوان کو کارروائی کی سفارش کی ہے۔ جن جرنیلوں کیخلاف کارروائی کی سفارش کی گئی ہے ان میں جاوید اشرف قاضی ، سعید ظفر اور حسن بٹ شامل ہیں۔ چوہدری نثار نے کہا کہ افضل چن اور ان کی کمیٹی نے زبردست کام کیا ہے۔قبل ازیں چوہدری نثار علی خان کو اس وقت تنقید کا نشانہ بننا پڑا تھا جب ان کو 3 سابق جرنیلوں کیخلاف دھماکا خیز رپورٹ دی گئی اور انہوں نے یہ رپورٹ دیگر ارکان کو نہ دی۔ یہ تاثر دیا گیا کہ چوہدری نثار سکینڈل میں ملوث آرمی جرنیلوں کو تحفظ دے رہے ہیں لیکن چوہدری نثار نے ان تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے رپورٹ نہیں دبائی ہوئی اور اس پر باضابطہ کارروائی اس وقت ہوگی جب متعلقہ وزارت (منصوبہ بندی ڈویژن) کی رپورٹس مقررہ وقت پر پیش کی جائیں گی۔ادھر پی اے سی کے ارکان کو فراہم کردہ انکوائری رپورٹ سے انکشاف ہوا کہ جی ایچ کیو کے زیر انتظام چلنے والی این ایل سی کے اعلیٰ حکام نے فراڈ کرتے ہوئے حکومت پاکستان اور ملک کے ٹیکس دہندگان کو نقصان پہنچایا۔ این ایل سی میں 4 ارب روپے کے سکینڈل کی اس خفیہ انکوائری رپورٹ کے مطابق 2سابق لیفٹیننٹ جنرل ، ایک میجر جنرل اور 2 سول ملازمین نے وزیراعظم شوکت عزیز کے احکامات کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس ادارے کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا۔رپورٹ میں اس بات کا بھی انکشاف کیا گیا کہ 2003ء سے کارپرداز ان جرنیلوں نے این ایل سی ملازمین کا پنشن فنڈ بھی سٹاک مارکیٹ میں جھونک دیا۔ انتہائی خوفناک بات جو اس رپورٹ میں ہے وہ یہ کہ ان جرنیلوں نے 4 بینکوں سے 2 ار روپے قرضہ لیا اور سٹاک مارکیٹ میں جھونک دیئے جن میں سے 1.8 ارب روپے پہلے ہی بہہ چکے ہیں ۔ جن بینکوں سے قرض لیا گیا ان میں الفلاح بینک (650 ملین روپے) ، نیشنل بینک (90 ملین) ، یو بی ایل (8 سو ملین) اور اے بی ایل (500 ملین روپے) شامل ہیں۔این ایل سی اب بھی ان قرضوں پر کمرشل سود ادا کر رہی ہے۔ انکوائری رپورٹ میں اس غلط سرمایہ کاری کا ذمہ دار لیفٹیننٹ جنرل افضل مظفر (15 جون 2005ء تا 17 اکتوبر 2008ء) ، لیفٹیننٹ جنرل خالد منیر خان (15 جنوری 2004ء تا 14 جون 2005ء) ، ڈی جی این ایل سی میجر جنرل خالد طاہر خان (25 جولائی 2002ء تا 27 فروری 2008ء) ، ڈی ایف اے نجیب اللہ (25 اکتوبر 2002 تا 10 اپریل 2007ء) اور چیف فنانس آفیسر سعید الرحمن (25 اکتوبر 2002ء تا 10 اپریل 2007ء) کو ٹھہرایا گیا ہے۔سعید الرحمن اس وقت سی ڈی اے میں چیف فنانس منیجر کے طور پر کام کر رہے ہیں جبکہ جنرل ریٹائرڈ ہوگئے ہیں۔ انکوائری رپورٹ کے مطابق 10 اپریل 2009ء تک کل سرمایہ کاری کا حجم 4.1 ارب روپے تھا اور اس سرمایہ کی موجودہ ویلیو 2.3 ارب روپے ہے۔ این ایل سی کو مجموعی نقصان 1.8 ارب روپے ہوچکا ہے۔رپورٹ کے مطابق 8ستمبر 2003ء کو اس وقت کے وزیر خزانہ شوکت عزیز نے این ایل سی کے بورڈ آف ڈائریکٹر کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے این ایل سی کی سرمایہ کاری پالیسی کی منظوری دیتے ہوئے مشورہ دیا کہ سرمایہ کاری سٹاک مارکیٹ اور کیری اوور سودے بازی میں نہ کی جائے۔

No comments:

Post a Comment